Monday 19 September 2016

واقعہ غدیر، اسلامی اتحاد کا محور؛ رہبر انقلاب کی تقاریر سے اقتباس

پیام ٹی وی ون نیوز نیٹ ورک:
اسلامی اتحاد غدیر کی روشنی میں
رہبر معظم نے مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد و یکجہتی پر مکمل توجہ رکھنے کو غدیر کا ایک اور عظیم درس قراردیتے ہوئے فرمایا : حضرت علی (ع) کو پیغمبر اسلام نے منصوب کیا تھا لیکن جب انھوں نے یہ دیکھا کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے سے ممکن ہے اسلام کو نقصان پہنچے اور اختلاف پیدا ہوجائے تو آپ نے اس کا نہ صرف دعوی کیا بلکہ وہ لوگ جو اس منصب کے حقدار نہ تھےاورجو زبردستی اور طاقت کے زور پر اسلامی معاشرے پر حکومت کررہے تھے آپ نے ان کے ساتھ مسلسل تعاون کیا کیونکہ اسلام کو اتحاد کی ضرورت تھی اوراسی وجہ سے حضرت علی (ع) نے اس عظيم فداکاری کو انجام دیا ۔
رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: ایرانی عوام کے پاس آج عالم اسلام میں امامت اور ولایت جیسی قوی ، مضبوط اور مستحکم منطق ہے لیکن وہ اپنے حق کےاثبات کو دوسروں کی نفی میں تلاش و جستجو نہیں کرتی ۔ اور امیرالمؤمنین علی (ع) کی پیروی کرتے ہوئے وحدت و یکجہتی کی علمبردار ہے اور تمام اسلامی مذاہب کو اتحاد اور یکجہتی کی طرف دعوت دیتی ہے۔
رہبر معظم نے امت اسلامی کو دشمنوں کے مکروفریب کے مقابلے میں ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن عالم اسلام میں اختلاف کا بیج بونے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔اور غدیر کا عظیم درس ، اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنے والوں کے خلاف جد وجہد پر مبنی ہے ۔ اور اس عمل کو انجام دینے کے لئے ضروری ہےکہ مسلمان ایک دوسرے کے مقدسات کی اہانت کرنے اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے اجتناب کریں اور جیسا کہ حج کے پیغام میں بیان کیاہے کہ مسلمان مفکرین امت اسلامی کےدرمیان اتحاد اور اسلامی انسجام کو مضبوط و مستحکم بنا کر عالم اسلام " شیعہ اور سنی " کے درمیان اختلاف ڈالنے کے سامراجی طاقتوں کے شوم منصوبوں کو ناکام بنادیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام دشمن عناصراور سامراجی طاقتوں کے مکر وفریب کے بارے میں ایرانی عوام کی آگاہی کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کی رمز قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام کا خدا وند متعال کی ذات پر ایمان و توکل ،ذمہ داری کا احساس، دشمن کے ناپاک منصوبوں کے بارے میں مکمل ہوشیاری و آگاہی اورگذشتہ 29 سالوں میں سامراجی طاقتوں کی تمام گھناؤنیسازشوں کے مقابلے میںایرانی عوامکی کوششوں کوکامیاب قراردیتے ہوئے فرمایا: ان کامیابیوں کو جاری رکھنے کے لئے ہمیں کبھی دشمن کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ اور میدان میں اپنے حضور سے غافل بھی نہیں رہنا چاہیے ۔

مسلمانوں میں آپسی دوری دشمن کو اختلاف ڈالنے کا موقع فراہم کرتی ہے

مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوری دشمنوں کو انکی صفوں میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کاموقع فراہم کرتی ہے امت اسلامیہ مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب کے ماننے والوں سے تشکیل پائی ہے اور زمین کے حساس اور اہم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں اس کا آباد ہونا اس کے تنوع اوراس کےعظیم پیکر کے لئے ایک مضبوط نقطہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس وسیع و عریض دنیا میں امت اسلامیہ کی مشترکہ ثقافت ، میراث اور تاریخ کو مزید فعال و کارآمد بنایاجاسکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں و صلاحیتوں کو مسلمانوں کے لئے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل ہوتے ہی اسی نکتہ کو مد نظر رکھا اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو مسلسل اشتعال دلانے کی کوشش شروع کردی ۔

سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی یہ معلوم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ہوجائے گالہذاانہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی ہمہ گیر اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ سیاست کی آڑ میں انہوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر اپنا تسلّط جمانا شروع کردیا۔

گذشتہ صدی میں اسلامی ممالک میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی اور ان ملکوں پر تسلّط جمانے میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی اور ان میں استبدادی حکومتوں کا قیام یا انکی تقویت اور ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ و انسانی وسائل کی نابودی و تباہی اور اسکے نتیجے میں مسلمان قوموں کو علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے پیچھے کردینا یہ سب کے سب سامراجی منصوبے مسلمانوں کےاختلاف و عدم اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوئے ہیں جو کبھی کبھی دشمنی ، جنگ و جدال اور برادر کشی پر بھی منتج ہوئے ہیں ۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے مغربی سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ہوا ۔ جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام ہے۔

مشرق و مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار کے غلط ثابت ہونے اور ان کی دھجیاں بکھر جانے سے جنہیں وہ انسانیت کی فلاح و کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتی تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی خود آگہی کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس چراغ الٰہی کو خاموش کرنے اور اس نور کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارآور بنادیا ہے ۔

آج کے فلسطین کو دیکھئے جہاں آج " صیہونی قبضے سے آزادی " کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت ، تنہائي اور ناتوانی سے اس کا موازنہ کیجئے ، لبنان پر نگاہ ڈالئے جہاں کے دلیر و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل کی مسلّح فوج کو شکست دی جسے امریکہ و مغرب اور منافقوں کی پوری مدد حاصل تھی اور پھر اس کا اُس لبنان سے موازنہ کیجئے کہ صیہونی جب چاہتے تھے اور جہاں تک چاہتے تھے کسی مزاحمت کے بغیر آگے تک چلے جاتے تھے ۔

عراق پر نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس کی فوج اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے تھے سیاسی ، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناہی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا، افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جہاں فریب اورجھوٹ ثابت ہوئےاور جہاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک کی تباہی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے مافیا گروہوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سواء اور کچھ نہیں کیاہے اور سرانجام اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی ہوئی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ و مغرب سے نفرت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔

ان تمام واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی بد بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ہورہی ہے ۔

 تفرقہ انگیزی تاریخی گناہ ہے

آج ہر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ انگیزی کا باعث ہو تاریخی گناہ ہے وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بہانوں سے کافر قرار دے رہے ہیں ، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذہبی مقامات کی اہانت کررہے ہیں ، وہ لوگ جولبنان کے ان جانباز جوانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں جو امت اسلامیہ کی سربلندی اور عالم اسلام کے لئے باعث فخرہیں وہ لوگ جوامریکہ اور صیہونیوں کی خوشامد کے لئے ہلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موہوم خطرے کی باتیں کررہے ہیں ، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اورمسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ہوا دے رہے ہیں وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر ہرطرف سے دباؤ ڈال رہے ہیں جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے وہ لوگ خواہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ایسے مجرم شمار ہوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ کی نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انہیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی ۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ہوچکاہے اوراب نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے یہ خیال باطل ہے کہ مسلمان ملکوں کو ہمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رہنا ہے اور انفرادی و اجتماعی فکر وگفتار و عمل میں مغرب کی ہی تقلید و پیروی کرنا چاہیے اب خود مغرب والوں کے غرور و تکبرو ظلم و ستم اور انتہا پسندی کی وجہ سے یہ تصور مسلمان قوموں کے ذہنوں سے پاک ہوچکا ہے۔

امت اسلامی کا اتحاد اہم ہے

دوسرانکتہ "ہمارے زمانے میں امت اسلامی کا اتحاد "ہے یہ اہم نکتہ ہے ہم نے نہ صرف انقلاب کے زمانے سے بلکہ انقلاب سے کئی برس قبل شیعہ اور سنی بھائيوں کے دلوں کو نزدیک کرنے اورسب کو اس اتحاد کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی غرض سے کوششیں شروع کی تھیں میں نے بلوچستان میں " انقلاب سے برسوں قبل جب میں وہاں شہربدرکرکے بھیجا گياتھا " مرحوم مولوی شہداد کو (جو کہ بلوچستان کے معروف علماء میں سے تھے اور بلوچستان کے لوگ ان کو پہچانتے ہیں،فاضل شخص تھے اس زمانے میں سراوان میں تھے اور میں ایرانشہرمیں تھا)پیغام بھیجا کہ آئيں موقع ہے بیٹھتے ہیں اور اہل سنت و اہل تشیع کے درمیان علمی، حقیقی اور قلبی اور واقعی اتحاد کے اصول بناتے ہیں انہوں نے بھی میری تجویزکاخیر مقدم کیا لیکن بعد میں انقلاب کے مسائل پیش آگۓ،انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے جو نمازجمعہ کے موضوع پر پہلی کانفرنس کی تھی اس میں مولوی شہداد سمیت اہل سنت کے بعض علماءبھی شریک تھے بحث و گفتگو ہوئي اور ان مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

تعصبات کی بناپر دوطرح کے عقیدوں کے حامیوں میں اختلاف ہونا ایسا امر ہے جوفطری ہے اور یہ شیعہ و سنی سے مخصوص نہیں ہے خود شیعہ فرقوں اور سنی فرقوں کے مابین ہمیشہ سے اختلافات موجود رہے ہیں تاریخ کا جائزہ لیں دیکھیں گے کہ اہل تسنن کے اصولی اور فقہی فرقوں جیسے اشاعرہ ، معتزلہ جیسے حنابلہ احناف اور شافعیہ کے درمیان اختلاف رہا ہے اسی طرح شیعوں کے مختلف فرقوں کے مابین بھی اختلافات رہے ہیں ،یہ اختلافات جب عام لوگوں تک پہنچتےہیں تو خطرناک رخ اختیارکرلیتے ہیں لوگ دست بہ گریباں ہوجاتے ہیں ،علماء باہم بیٹھتے ہیں گفتگو کرتے ہیں بحث کرتے ہیں لیکن جب علمی صلاحیت سے عاری لوگوں کی بات آتی ہے تو وہ جذبات تشدد اور مادی ہتھیاروں کا سہارالیتے ہیں اور یہ خطرناک ہے ۔دنیا میں یہ ہمیشہ سے ہے مومنین اور خیرخواہ لوگوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اختلافات کاسد باب کریں ،علما‏ء اور سربرآوردہ شخصیتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عوام میں تصادم نہ ہونے پائے لیکن حالیہ صدیوں میں ایک اور عامل شامل ہوگیاجو استعمار ہے میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہمیشہ شیعہ سنی اختلافات سامراج کی وجہ سے تھے ایسا نہیں ہے مسلمانوں کے جذبات بھی دخیل تھے ،بعض جہالتیں بعض تعصبات بعض جذبات بعض کج فہمیاں دخیل رہی ہیں لیکن جب سامراج میدان میں اترا تو اس نے اختلافات کےحربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ۔

اس بناپر آپ دیکھتے ہیں کہ سامراج اور استکبارکے خلاف جدجہد کرنے والی ممتازشخصیتوں نے امت اسلامی کے اتحاد پر بے حد تاکید کی ہے ،آپ دیکھیں سید جمال الدین اسد آبادی ر|ضوان اللہ علیہ المعروف بہ افغانی اور ان کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اور دیگرشخصیتوں اور علماءشیعہ سے مرحوم شرف الدین عاملی اور دیگر بزرگوں نے سامراج کے مقابلے میں کس قدر وسیع کوششیں کی ہیں کہ یہ سامراج کے ہاتھ میں یہ آسان وسیلہ عالم اسلام کے خلاف ایک حربے میں تبدیل نہ ہوجائے،ہمارے بزرگ اور عظيم رہنما حضرت امام خمینی(رہ) ابتداء ہی سے امت اسلامی کے اتحاد پر تاکید کیا کرتےتھے سامراج نے اس نقطہ پر آنکھیں جمائے رکھیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔

اختلاف پھیلانے والے نہ شیعہ ہیں نہ سنی

آج عراق میں شیعہ اورسنی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں پاکستان میں بھی یہ کام کرنا چاہتے ہیں افغانستان میں اگر ممکن ہوتا یہ کام کرنا چاہتےہیں اگر ایران میں انہیں موقع ملے تو ایسا کریں گے جہاں بھی انہیں موقع ملے وہ یہ کام کریں گے ہمیں اطلاع ملی ہےکہ سامراج کے آلہ کار لبنان بھی گۓ ہیں تاکہ شیعہ اورسنی اختلافات پھیلائيں ۔

وہ لوگ جو اختلافات پھیلاتے ہیں وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی، نہ شیعوں سے انہیں کوئي لگاؤ ہے اور نہ سنیوں سے، نہ شیعوں کے مقدسات کو مانتے ہیں اور نہ سنیوں کے ،چند دنوں قبل امریکی صدر بش نے اپنی تقریرمیں عراق کے شہر سامرا میں حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیھما السلام کے روضوں میں بم دھماکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلفیوں کو اس کا ذمہ دار قراردیا اور شیعوں کو اس طرح بھڑکایا اور اس میں کامیاب بھی رہے ،مقدس روضوں میں بم دھماکے امریکیوں کے سامنے ہوئے ہیں ،اسی شہر میں حضرات عسکرییں علیھماالسلام کے روضوں میں بم دھماکے ہوئے ہیں جوامریکیوں کے زیرکنٹرول ہے اور امریکہ کی مسلح افواج اس شہرمیں گشت کررہی ہیں امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے یہ ہوا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ امریکیوں کی اطلاع کے بغیر امریکیوں کی اجازت کے بغیر اور امریکیوں کی منصوبہ بندی کے بغیر یہ واقعہ ہواہو خود امریکیوں نے یہ کام کیا ہے ۔

منبع: خامنہ ای ڈاٹ آئی آر

Thursday 8 September 2016

کشمیر میں ہندوستان مخالف مظاہرے جاری

:پیام ٹی وی ون نیوز نیٹ ورک:گذشتہ دنوں کی طرح آج بھی کشمیر میں ہندوستان مخالف مظاہرے ہوئے- مظاہروں میں شامل لوگوں نے ہندوستانی حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور اس ملک کی حکومت کی جانب سے کشمیر کے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کی پالیسی کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا- مظاہروں میں شامل لوگوں نے کشمیری عوام پر ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے اس علاقے میں جاری حملوں اور تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا-

ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے فائر کئے اور پلاسٹک کی گولیاں چلائیں کہ جس کے دوران دو کشمیری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے- سیکورٹی اہلکاروں نے کئی افراد کو گرفتار بھی کر لیا- ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے اور ہڑتال جاری ہے- پیرکو پاکستانی عوام نے اسلام آباد میں کشمیری عوام کی حمایت میں مظاہرہ کیا اورہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں کشمیری عوام کے مارے جانے کی مذمت کی- ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں تقریبا دو مہینے سے ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں اور کشمیری مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم سے کم پچھہتر کشمیری جاں بحق اور بارہ ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں-

علامہ ساجد نقوی: آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ملک کے دیگر شہروں تک پھیلانے کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں

:پیام ٹی وی ون نیوز نیٹ ورک: کی رپورٹ کے مطابق شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے یوم دفاع کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں دفاع پاکستان کے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے دفاع کے لئے پاک فوج نے ماضی میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں، وہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہم ملکی سلامتی اور دفاع کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، لیکن ہماری توجہ اس نکتے کی طرف بھی مرکوز رہنی چاہیئے کہ اگر پاک فوج اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں تک محدود رہے تو وہ بہترین انداز میں پاکستان کا دفاع اور ملکی سلامتی کا تحفظ کر سکتی ہے، ایک طرف سرحدوں پر ازلی دشمن جارحیت دکھا رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے اندر ملک دشمن سفاک دہشت گرد، ٹارگٹ کلر اور بدامنی پھیلانے والے عناصر سرگرم عمل ہیں، ضرب عضب آپریشن کا دائرہ ملک کے دیگر شہروں تک پھیلانے کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں، اسی طرح نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد بھی ملکی مفاد میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان حالات میں حکمرانوں اور ملکی دفاع و سلامتی کے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں موجود بحرانوں کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، ملکی سلامتی قومی یکجہتی کو مقدم خیال کرتے ہوئے سرحدوں کے دفاع کو باہم متحد ہوکر یقینی بنایا جائے، عوام کو امن و سکون کی فراہمی، ان کے مذہبی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ علامہ ساجد نقوی نے دفاع پاکستان کی جنگ میں شہید ہونے والے تمام شہداء کو خراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ اپنے اندر وحدت و اتحاد پیدا کریں اور ہر قسم کے فرقہ وارنہ، مسلکی، فروعی، لسانی، گروہی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اسلام اور پاکستان کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے کر خدمت کا عہد کریں۔

پاکستان کے ریاستی اداروں اور وہابی دہشت گردوں کے درمیان قریبی گٹھ جوڑکا انکشاف

:پیام ٹی وی ون نیوز نیٹ ورک: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انکشاف کیا ہے کہ بلا شبہ پاکستان میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑہے، مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ وہابی دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا ہے جس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو پالیسی بیان آتا ہے، اب بھی بیان آیا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے، بلا شبہ ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہو گا،تاہم اس گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ اور ہے جو وہابی دہشت گرد تنظیموں اور ریاست کے اداروں کے درمیان ہے اور اس گٹھ جوڑ کے بہت سے شواہد سامنے بھی آگئے ہیں، ریاستی اداروں کے بعض لوگوں کا دہشت گرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ ثابت ہو چکا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب ملا منصور مارا گیا تو اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھااور یہ اس گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے، ابھی تک دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ نہیں توڑا گیا،وفاقی وزیر داخلہ ریاستی اداروں اور دہشت گرد تنظیموں کے گٹھ جوڑپر بھی بیان صادر کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہابی دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں نے اسلام آباد میں اجلاس کیا، اگر گٹھ جوڑ نہ ہوتا تو وہ اسلام آباد آنے کی جرات نہ کرتے،کالعدم تنظیموں کو دوبارہ نہ اٹھنے دیا جائے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ریاست ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق پاکستان کی وفاقی حکومت وہابی دہشت گردرہنماؤں کو بھر پور تحفظ فراہم کررہی ہے جبکہ بعض کارروائیوں میں نچلے درجے کے وہابی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

Monday 5 September 2016

پوری دنیا کے مسلمانوں اور حجاج کرام کے نام رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا پیغام

بسم الله الرحمن الرحیم


و الحمدلله رب العالمین و صلّی الله علی سیدنا محمد و آله الطیبین و صحبه المنتجبین
و من تبِعَهم بِاِحسانٍ الی یوم الدین.
دنیا بھر کے مسلمان بھائیو اور بہنو!
مسلمانوں کے لئے ایام حج، لوگوں کی نظر میں عظمت وشکوہ اور افتخار کے ایام اور خالق کی بارگاہ میں دل کو منور کرنے اور خشوع و مناجات کے ایام ہیں۔ حج ایک ملکوتی، دنیاوی، خدائی اور عوامی فریضہ ہے۔ ایک طرف تو یہ فرامین؛ «فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبائکمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا»(1) اور «وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ»(2) اور دوسری جانب یہ خطاب: «الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ»(3) حج کے لا متناہی اور گوناگوں پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔
اس عدیم المثال فریضے میں، زمان و مکان کا تحفظ آشکارا نشانیوں اور درخشاں ستاروں کی مانند انسانوں کے دلوں کو سکون و طمانیت عطا کرتا ہے اور عازمین حج کو عدم تحفظ کے عوامل کے حصار سے جو توسیع پسند ظالموں کی جانب سے ہمیشہ عام انسانوں کے لئے سوہان روح بنے رہے ہیں، باہر نکال لیتا ہے اور ایک معین دورانئے میں انھیں احساس تحفظ کی لذت سے آشنا کراتا ہے۔
حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے اور بدعنوانی، حقارت اور اقوام کو مستضعف و کمزور بنائے رکھنے کی دلدل سے جسے دنیا کی تسلط پسند اور اوباش طاقتیں انسانی معاشروں پر مسلط کر دیتی ہیں، مسلمانوں کے طویل فاصلے کو نمایاں کرتا ہے۔
اسلامی اور توحیدی حج، «أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ»(4) کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔ جن لوگوں نے حج کی اہمیت کو گھٹا کر اسے محض ایک زیارتی و سیاحتی سفر سمجھ لیا ہے اور جو ایران کی مومن و انقلابی قوم سے اپنی دشمنی اور کینے کو 'حج کو سیاسی رنگ دینے' جیسی باتوں کے پردے میں چھپا رہے ہیں، وہ ایسے حقیر اور معمولی شیطان ہیں جو بڑے شیطان امریکا کے اغراض و مقاصد کو خطرے میں پڑتے ہوئے دیکھ کر کانپنے لگتے ہیں۔ سعودی حکام جو اس سال سبیل اللہ اور مسجد الحرام کے راستے میں رکاوٹ بنے ہیں اور جنھوں نے خانہ محبوب کی سمت مومن و غیور ایرانی حاجیوں کا راستہ بند کر دیا ہے، وہ ایسے رو سیاہ اور گمراہ افراد ہیں جو ظالمانہ اقتدار کے تخت پر اپنی بقا کو عالمی مستکبرین کے دفاع، صیہونزم اور امریکا کی ہمنوائی اور ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوششوں پر موقوف سمجھتے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی طرح کی خیانت کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے۔
اس وقت منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریبا ایک سال کا عرصہ ہو رہا ہے جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سے کچھ ہی دن قبل مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے۔ سعودی حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ فنی ماہرین، مبصرین اور تمام حاضرین کا اس پر اتفاق رائے ہے۔ بعض اہل نظر افراد کی جانب سے سانحے کے عمدی ہونے کا خیال بھی ظاہر کیا گيا ہے۔ نیم جاں ہو چکے زخمیوں کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی اور تساہلی بھی طے شدہ اور مسلمہ حقیقت ہے۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے انھیں جاں بحق ہو چکے لوگوں کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کر دیا اور انھیں علاج، مدد  یہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ کئی ملکوں کے کئی ہزار خاندان اپنے عزیزوں سے محروم ہو گئے اور ان ملکوں کی قومیں سوگوار ہو گئیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے تقریبا پانچ سو افراد شہدا میں شامل تھے۔ اہل خانہ کے دل ہنوز مجروح اور سوگوار ہیں اور قوم بدستور غمگین و خشمگین ہے۔
سعودی حکام معافی مانگنے، اظہار ندامت اور اس ہولناک سانحے کے براہ راست قصورواروں کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے کے بجائے، حد درجہ بے شرمی اور بے حیائی سے حتی ایک اسلامی بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل سے بھی انکاری ہو گئے۔ ملزم کی پوزیشن میں کھڑے ہونے کے بجائے مدعی بن گئے اور اسلامی جمہوریہ سے نیز کفر و استکبار کے خلاف بلند ہونے والے ہر پرچم اسلام سے اپنی دیرینہ دشمنی کو اور بھی خباثت اور ہلکے پن کے ساتھ بے نقاب کیا۔
ان کی پروپیگنڈہ مشینری؛ ان کے سیاستدانوں سے لیکر جن کا امریکا اور صیہونیوں کے سامنے رویہ عالم اسلام کے لئے بدنما داغ ہے، ان کے غیرمتقی اور حرام خور مفتیوں تک جو قرآن و سنت کے خلاف آشکارا طور پر فتوے دیتے ہیں، اسی طرح ان کے پٹھو ابلاغیاتی اداروں تک جن کا پیشہ ورانہ احساس  ذمہ داری بھی ان کے جھوٹ اور دروغ گوئی میں رکاوٹ نہیں بنتا، اس سال ایرانی حجاج کرام کو حج سے محروم کرنے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کی عبث کوشش کر رہے ہیں۔ فتنہ انگیز حکام جنھوں نے شیطان صفت تکفیری گروہوں کی تشکیل اور انھیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا اور بے گناہوں کو قتل اور زخمی کیا ہے اور یمن، عراق، شام اور لیبیا اور بعض دیگر ملکوں کو خون سے نہلا دیا ہے، اللہ سے بیگانہ سیاست باز جنھوں نے غاصب صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین کے گاؤوں اور شہروں تک پھیلا دیا ہے، وہ بے ضمیر اور بے دین حکام جنھوں نے منٰی کا وہ عظیم سانحہ رقم کیا اور حرمین کے خادم ہونے کے نام پر محفوظ حرم خداوندی کے حریم کو توڑا اور تقدس کو پامال کیا اور عید کے دن خدائے رحمان کے مہمانوں کو منٰی میں اور اس سے پہلے مسجد الحرام میں خاک و خون میں غلطان کیا، اب حج کو سیاسی رنگ نہ دینے کی بات کر رہے ہیں اور دوسروں پر ایسے بڑے گناہوں کا الزام لگا رہے ہیں جن کا ارتکاب خود انھوں نے کیا ہے یا اس کا سبب بنے ہیں۔
وہ قرآن کے اس بصیرت افروز بیان؛ «وَإِذا تَوَلّىٰ سَعىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيها وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لا يُحِبُّ الْفَسادَ»(5) «وَإِذا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهادُ»(6). کے مکمل مصداق ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق اس سال بھی انھوں نے ایرانی حجاج اور بعض دیگر اقوام پر راستہ بند کرنے کے ساتھ ہی دیگر ملکوں کے حجاج کو امریکا اور صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے غیر معمولی کنٹرولنگ سسٹم کے دائرے میں رکھا ہے اور محفوظ خانہ خداوندی کو سب کے لئے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
عالم اسلام بشمول مسلمان حکومتیں اور اقوام، سعودی حکام کو پہچانیں اور ان کی گستاخ، بے دین، مادہ پرست اور (استکبار کے تئیں ان کی) فرمانبردار ماہیت کا بخوبی ادراک کریں اور عالم اسلام کی سطح پر انھوں نے جو جرائم انجام دئے ہیں ان کے سلسلے میں ان حکام کا گریبان پکڑیں اور ہرگز نہ چھوڑیں۔ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ ان کے ظالمانہ رویے کے باعث حرمین شریفین اور امور حج کے انتظام و انصرام کے لئے کوئی بنیادی راہ حل تلاش کریں۔ اس فریضے کے سلسلے میں کوتاہی امت مسلمہ کے مستقبل کو زیادہ بڑی مشکلات سے دوچار کر دے گی۔
مسلمان بھائیو اور بہنو! اس سال حج کے اجتماعات میں مشتاق و بااخلاص ایرانی حاجیوں کی کمی ہے، مگر ان کے دل ساری دنیا کے حاجیوں کے ساتھ موجود اور ان کی بابت فکرمند ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ طاغوتوں کا شجرہ ملعونہ انھیں کوئی گزند نہ پہنچائے۔ اپنے ایرانی بھائیوں اور بہنوں کو دعاؤں، عبادتوں اور مناجاتوں کے وقت ضرور یاد رکھئے اور اسلامی معاشروں کی مشکلات کے ازالے اور امت اسلامیہ کے استکباری طاقتوں، صیہونیوں اور ان کے آلہ کاروں کی دست برد سے دور ہو جانے کی دعا کریں۔
میں سال گزشتہ منٰی اور مسجد الحرام کے شہیدوں اور سنہ 1987 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے ان کے لئے مغفرت، رحمت اور بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے امت مسلمہ کے ارتقا اور دشمنوں کے فتنہ و شر سے مسلمانوں کی نجات کا طلبگار ہوں۔
و بالله التوفیق و علیه التکلان
آخر ذی ‌القعده ۱۴۳۷
(1)- سوره‌ بقره، آیت ۲۰۰ (تو جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو۔)
(2)- سوره‌ بقره، آیت ۲۰۳ (یہ گنتی کے چند روز ہیں، جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔)
(3)- سوره‌ حج، آیت ۲۵ (جسے ہم نے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔)
(4)- سوره‌ فتح، آیت ۲۹(وہ کفار پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔)
(5)- سوره‌ بقره، آیت ۲۰۵ (جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔)
(6)- سوره‌ بقره، آیت ۲۰۶ (اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے، ایسے شخص کے لئے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔)


Saturday 27 August 2016

امریکی وزیر خارجہ کی سعودی عرب کے بادشاہ سے ملاقات

پیام ٹی وی ون نیوز ڈیسک:رپورٹ کے مطابق امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے سعودی عرب کے امریکہ نواز بادشاہ سلمان سے ملاقات میں لیبیا، یمن اور شام کی صورتحال پر گفتگو اور تبادلہ خیال کیا ہے امریکہ شام، لیبیا اور یمن میں سعودی عرب کی ظالمانہ ، جارحانہ اور غیر انسانی پالیسیوں کی حمایت کررہا ہے۔
سعودی عرب کے بادشاہ کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ جدہ روانہ ہوگئے جہاں اس نے سعودی عرب ، امارات کے وزراء خارجہ، برطانیہ کے نائب وزير خارجہ اور یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے ولد شیخ کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔
امریکی وزير خارجہ سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے بعد جنیوا روانہ ہوجائیں گے جہاں وہ روس کے وزیر خارجہ سرگغی لاوروف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کریں گے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے مارچ 2015 سے یمن پر امریکی سرپرستی میں جنگ مسلط کررکھی ہے جس میں اب تک 30 ہزار سے زائد افراد شہید اور زخمی ہوگئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔                                                                                                                 

پانچ برسوں کی استقامت کے معجزے نے شامی حکومت کو گرنے سے بچایا

پیام ٹی وی ون نیوز ڈیسک:رپورٹ کے مطابق تہران کے خطیب جمعہ حجۃ الاسلام
کاظم صدیقی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں شام میں بشاراسد کی قانونی حکومت کو گرانے کے لئے عالمی سامراج اور صیہونیوں کی ہمہ جانبہ کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ روزبروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور علاقے میں تکفیریت کا خطرہ جلد ہی نابود اور اس کی بیخ کنی ہو جائے گی- تہران کے خطیب جمعہ نے یمن میں بچوں کی قاتل آل سعود حکومت کے جرائم اور یمنی عوام کے مسلسل قتل عام کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب، یمن پر وحشیانہ بمباریوں اور اس ملک کی بنیادی تنصیبات کو تباہ و برباد کرنے کے باوجود اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کر سکا- انہوں نے یمن میں اعلی سیاسی کونسل کی تشکیل کو جارح قوتوں کے مقابلے میں استقامتی محاذ کے راستے کا جاری سلسلہ قرار دیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی یمن کی قانونی حکومت خودمختاری حاصل کرلے گی اور سعودی عرب اور اس کی حامی حکومتیں اپنے اعمال کی سزا پائیں گی- تہران کے خطیب جمعہ نے ایران میں ہفتہ حکومت اور سابق صدر شہید محمد علی رجائی اور سابق وزیراعظم شہید جواد باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ہستیوں نے اپنی شہادت کے ذریعے جس حقانیت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے انہوں نے اسلامی جمہوری نظام میں حکومتی عہدیداروں کے لئے بہترین نمونہ پیش کیا ہے-